صحت

کچھ گر کی باتیں جو آپ کے بہت کام آ سکتی ہیں

کچھ ایسی گر کی باتیں جو آپ کے گھر اور گھر والوں کی صحت کو بہتر اور ماحول کو خوشگوار بنا دیں گی

تولیہ کا الگ استعمال

گھر کے ہر فرد کو الگ تولیہ استعمال کرنا چاہیے اور ہر شاور کے بعد تولیہ تبدیل کرنا چاہیے۔ یعنی ایک صاف تولیہ ایک ہی بار استعمال کریں پھر اسے دھو لیا جائے ۔
کوشش کیجیے کہ ہر فردکا تولیہ الگ رنگ کا ہو تاکہ ہر ایک اپنا ہی تولیہ استعمال کرے۔
اس طرح تولیے زیادہ بھی رکھنے پڑتے ہیں اور بار بار دھونے سے جلد پرانے بھی ہو جاتے ہیں لیکن جلد کا انفیکشن مثلا خارش وغیرہ پھیلنے کا امکان کم سے کم ہو جاتا ہے۔ تولیے ہی کی مانند کنگھا، ہیئربرش، نیل کٹر اور ٹوتھ برش بھی سب کا الگ ہونا چاہیے۔ اس سے بہت سے متعدی امراض مثلا ہیپاٹائٹس کا پھیلاؤ رکتا ہے اور پیراسائٹس مثلا جوئیں بھی ایک سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوتیں۔

غسل خانہ اور باورچی خانہ روزانہ کی بنیاد پر دھوئے جائیں

اسی طرح یاد رکھیں کہ غسل خانہ اور باورچی خانہ روزانہ کی بنیاد پر دھوئے جائیں۔ یہ اچھی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ نیز اِن دونوں کمروں میں کھڑکی یا روشن دان ضرور مہیا ہو۔ ایگزاسٹ فین بھی ہو تو سونے پر سہاگہ تاکہ تازہ ہوا کی آمدورفت ہوتی رہے۔ تازہ ہوا اِن دو کمروں میں صحت کے لیے مضر گیسوں کا اخراج کر کے انھیں جمع ہونے سے بچاتا ہے۔ یوں تو تمام گھر ہی روشن اور ہوا دار ہونا چاہیے تاکہ اذان کی خوبصورت آواز کے ساتھ ساتھ تازہ سانس، صحت بخش دھوپ اور بارش کی مہک گھر میں ہمیشہ مقیم رہے۔

بستر کی چادر کم از کم ہفتے میں دو بار تبدیل ہو۔

اسی طرح بستر کی چادر کم از کم ہفتے میں دو بار تبدیل ہو۔ اگر دو بار مشکل ہے تو ایک بار تو بہرحال ضرور بدلیں۔ یہ بھی جلدی امراض اور سانس کی بیماری سے بچانے میں مددگار ہے۔
بلاشبہ جتنی بار کپڑے، تولیے، چادریں تبدیل ہوں گے، اتنی بار ان کی دھلائی کا خرچ اور خاتون خانہ کی محنت بڑھے گی لیکن جہاں تک اضافی خرچ کی بات ہے تو اس سے بیماری کم ہوکر میڈیکل بل میں کمی ہو گی لہٰذا اضافی خرچ بیلنس ہو جائے گا۔ اور محنت کی بات ہے تو خاتون خانہ نے بیمار فیملی ممبر کی خدمت میں جتنی محنت کرنی ہے اس سے کم محنت میں واشنگ مشین میں ایک چکر میں چادریں تولیے دھل جائیں گے۔ اگر کپڑے ہاتھ سے دھونے پڑتے ہیں تب بھی روزانہ بدلنے والے تولیے یا دو روز میں تبدیل کر دی گئی بیڈ شیٹ اتنی میلی ہرگز نہیں ہوتی کہ جان توڑ محنت سے رگڑ رگڑ کر دھونا پڑے ۔ نیم گرم پانی اور سرف کے جھاگ میں بھگوئیں۔ کچھ دیر بعد صاف پانی میں کھنگال لیں۔ ممکن ہو تو ایک ٹب میں سرکے والا پانی بنا لیں۔ دھلے ہوئے کپڑے کھنگالنے کے دوران ایک بار اس سرکے والے ٹب میں بھی غوطہ دلا لیں۔ جراثیم و بدبو اڑن چھو ہو جائیں گے لیکن غوطے کے بعد صاف پانی سے گزارنا مت بھولیں۔
خواب گاہ اور وہ کمرے جہاں زیادہ تر وقت گزرتا ہے مثلًا ڈرائنگ روم، اس کی ہفتہ وار دھلائی کی جائے۔ پردے، گدے/گدیاں اور تکیے اگر ممکن ہو تو ہر ماہ ایک بار جھاڑ پونچھ کے علاوہ دھوپ میں سکھائے جائیں۔ بیڈ پر بچھاتے ہوئے ان کی سائیڈ بھی تبدیل کر دی جائے۔ اس سے بیڈ بگز مثلًا کھٹمل کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ نیز سانس کی بیماری مثلا دمہ بھی کم رہتا ہے۔ گدے دھوپ میں ترو تازہ ہو جاتے ہیں اور تکیے دوبارہ سے پھول (Fluffy) جاتے ہیں۔ رضائی کی نمی دور ہو کر نہ صرف نیند پرسکون اور خوشگوار ہو جاتی ہے بلکہ کمر درد ،کندھوں کے کھنچاؤ، اکڑ اور بےخوابی کی شکایت بھی کم ہو جاتی ہے۔

کمرے کی ماہانہ صفائی

کمرے کی ماہانہ صفائی میں کمرے میں موجود تمام فرنیچر ہلا جلا کر اس کے نیچے اور پیچھے سے تمام گرد و غبار اور جالے ہٹانا بھی شامل ہو، ورنہ صفائی کا مقصد حاصل نہ ہو گا۔ کمرے میں دھلے اَن دھلے کپڑوں کا انبار سا لگ جاتا ہے اسے بڑھنے نہ دیں۔ اگر ایک دو روز کپڑے استعمال نہیں ہوں تو صاف کپڑے الماری میں اور استعمال شدہ کپڑے واشنگ مشین میں پہنچا دیے جائیں۔
کمرے میں صفائی کے لیے مستعمل جھاڑن کا صاف ہونا بھی اہم ہے۔ کیسی تعجب کی بات ہے کہ ہمارے گھروں میں صفائی والا کپڑا ہی سب سے گندا ہوتا ہے۔ خود ہی سوچیے گندا کپڑا صفائی کیسے کر سکتا ہے؟ فرش کا پونچھا بھی اگر اچھے سے نہ دھویا جائے تو کمرے کی فضا مسموم و ناگوار کرنے کے ساتھ ساتھ صاف ستھری ٹائلز پر میل کی حفاظتی تہہ چڑھانے کا کام بخوبی کرتا ہے جس سے نہ صرف صفائی کرنے کے بعد بھی گھر صاف نہیں لگتا بلکہ جراثیم کے کھیل کود اور پنپنتے کے لیے وسیع و عریض پلے گراؤنڈ مہیا ہو جاتا ہے۔

غسل خانے کی صفائی

غسل خانے میں صابن دانی اور ٹوتھ برش ہولڈر پر جمی صابن و میل کچیل کی تہیں چڑھنے سے بچنا بھی روزانہ کی بنیاد پر صفائی ہی سے ممکن ہے۔ غسل خانے کی صفائی کا نتیجہ یہ ہو کہ فلش، فرش اور واش بیسن مکمل خشک ہو۔ کسی قسم کی بدبو باقی نہ رہے بلکہ ممکن ہو تو فضا مہک رہی ہو۔ کوئی میلا گیلا کپڑا غسل خانے میں لٹکتا نہ رہے۔ غسل خانے اور باورچی خانے میں ان ڈور پلانٹس مثلا منی پلانٹ یا اسنیک پلانٹ لگائیے۔ یہ رات کے وقت بھی آکسیجن مہیا کرتے ہیں اور مسموم فضا کو صحت مند بناتے ہیں۔
ویسے منی پلاانٹ کے سرسبز پتے کمرے کی رونق اور تازگی بڑھانے کے ساتھ موڈ پر بھی اچھا اثر ڈالتے ہیں۔کسی بھی پرانی بوتل یا گلاس میں پانی بھریں چند پتے منی پلانٹ لگا دیجیے۔ ہر پتا اپنی ٹہنی کے ساتھ ہو۔ دوسرے تیسرے دن پانی تبدیل کر دیا جائے تو پتے سے نئے پتے اور جڑیں پھوٹنے لگتی ہیں اور تادیر یہ پودے آپ کی خدمت و خاطر میں مصروف رہتے ہیں۔ غسل خانے کے فرش، واش بیسن اور آئینے پر پانی رہ جائے اور وہیں خشک ہوجائے تو نہایت ڈھیٹ قسم کے دھبے پیدا کرتا ہے جسے صاف کرنے میں پھر دانتوں پسینے آتے ہیں۔ سو نہانے کے فورا بعد وائپر لگا دیا جائے اور جسم خشک کرنے کے بعد اپنے دھلنے والے تولیے سے واش روم کے آئینے پر جمی بھاپ اور واش بیسن کی سطح پر موجود پانی کے قطرے خشک کر دیے جائیں تو یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگر تولیہ اس مقصد کے لیے استعمال کرنا اچھا نہ لگے تو ایک الگ ہینڈی ٹاول (چھوٹا تولیہ) اس کے لیے مختص برش اور سرف یا صابن کا جھاگ ہے۔ شاور کے دوران وقت ہو یا جب کبھی صاحب خانہ پر غصہ ہو تو وہ غصہ اس صفائی کی نذر کیجیے۔ بدترین سے بہترین نتائج برآمد ہوتے دیکھیں گی۔ غصہ بھی غائب کہ اتنی محنت کے بعد غصے کی ہمت کسے ہو گی اور صاف ستھرا مہکتا غسل خانہ دیکھ کر اس محنت کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والے ہیپی ہارمونز آپ کا موڈ نہایت خوشگوار کر دیں گے۔
گھر واپسی پر صاحب خانہ بھی صاف شفاف غسل خانےکے استعمال سے اچھا محسوس کریں گے۔ ساتھ میں آپ کا خوشگوار موڈ اگر اپ سے مزیدار کھانا پکوا لے تو سونے پر سہاگا۔ گھر کے ساتھ ساتھ دل بھی صاف ہو جائیں گے۔
ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button