ادباردو مضامین

میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن – ٹیپ ریکارڈر

ٹیپ ریکارڈر
از قلم: مبشر عزیز
کل ہی میری الماری سے ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر (منی ٹیپ ریکارڈر) برآمد ہوا اور میری آنکھوں کے سامنے وہ پرانا دور گھوم گیا (جو زیادہ پرانا نہیں بس پندرہ بیس سال پرانا ہے) جب کیسٹس کے لئے الگ الماری بنائی جاتی تھی اور باقاعدہ البم (گانوں کی کیسٹس) کا انتظار کیا جاتا تھا کہ کب وہ کیسٹ آئے گی تو ہم گانے سنیں گے۔
ٹی ڈی کے (TDK) کی کیسٹ سب سے مہنگی کیسٹ تصور کی جاتی تھی۔ اس پر گانے بھروانے (ریکارڈ کروانے) کے لئے ہفتوں غوروخوض کیاجاتا اور فہرست میں بار بار ردوبدل کیا جاتا اور آخر وہ مبارک دن آپہنچتا جب ہم میوزک شاپ پر جاکر فاتحانہ انداز میں منتخب گانوں کی فہرست تقریباً اس کے مالک کے منہ پر مارتے تھے۔
وہ بھی اس کو پکڑ کر کافی عرق ریزی کے بعد انکشاف کرتا کہ ان میں سے تین گانے اس کے پاس نہیں ہیں باقی بھر جائیں گے۔
پھر ہم اس کے ترلے منتیں مارتے کے بھائی پڑوسی سے پوچھ یا دشمن سے پوچھ یہ سب گانے بھر دے۔ کچھ دیر کے بعد وہ حامی بھر لیتا تھا۔ مقررہ دن ہم اس سے اپنی کیسٹ بھروائی کے بعد اٹھا لاتے تھے اور فوراً سے پیشتر گھر پہنچ کر اسے سنتے تھے۔
بعض اوقات نامعقول ٹیپ ریکارڈر کیسٹ کی ریل کو پھنسا دیتا، پھر اس کو صفائی سے نکالنا بھی ایک معرکہ ہوتا بلکہ مابدولت پورا ٹیپ ریکارڈر ہی کھول دیتے تھے۔ بسا اوقات ریل ٹوٹ جانے کی صورت میں باریک گانٹھ باندھی جاتی یا پھر ناخن پالش سے اس کو جوڑا جاتا تھا۔
جب دو کیسٹس والے ٹیپ ریکارڈر آئے تو موجیں ہوگئیں اور ہم باآسانی خود ہی گانے بھر لیاکرتے تھے بلکہ اپنی بھیانک آواز میں ایک کیسٹ بھی بھری تھی جو میں خود ہی سنتا تھا۔
اس ہی دوران بھائی ”واک مین“ کی آمد ہوئی جو چھوٹی جسامت کا ٹیپ تھا اور چھوٹے سیل ڈال کر بھی چلتا تھا۔ جوان لوگ بیلٹ میں اڑس کر ”اس دور کے برگر“ بنے پھرا کرتے تھے۔ اس کے سیل بہت جلد ختم ہوجاتے تھے اور خاص طور پر گانوں کو تیزی سے آگے پیچھے کرنے سے منع کیا جاتا تھا کہ سیل ختم ہوجائیں گے۔ اب تو ماشااللہ سیل فون کو چارج کرواور پورا دن موج کرو۔
ٹیپ ریکارڈر کی بگڑی شکل ڈیک تھا جو کہ ایمپلی فائیر میں ردوبدل کے ساتھ بنایا جاتاتھا اس میں ریکارڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ بڑے بڑے سپیکر لگا دیے جاتے تھے(یہ سپیکر کبھی گھڑے اور کبھی لکڑی کے ڈبوں میں نصب کیے جاتے تھے) اور پورے محلے کی نیندیں اڑا دی جاتی تھیں۔
خاص کر شادی بیاہوں میں ہفتہ پہلے یہ دھماکہ خیز مواد شادی کے گھر پہنچ جاتا تھا اور بس پھر محلے کے لونڈے لپاڑے ناچ ناچ کر نادیدہ گھنگرو توڑ ڈالتے تھے۔
بعض اوقات اس کو کرائے پر بھی لایا جاتا تھا۔
اکثر اوقات سیرگاہوں میں دو سپیکروں والا ٹیپ ریکارڈر لے کر جایاجاتا تھا جس میں چندا یا الہ دین کے بڑے والے سیل ڈلتے تھے۔ ہم اکثر ان سیلوں کو ختم ہونے پر توڑ کر اندر سے اسکے سکے کو کیپ سمیت نکال کر دیواروں پر لائنیں مارنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیتے تھے۔
یہ سیل بمشکل ایک دو کیسٹ ہی چلا پاتے تھے اور غاں غوں کرنے لگ جاتے تھے کہ بھائی صاحب نئے سیل لاؤ۔
کاروں میں بھی کیسٹ والے ٹیپ لگتے تھے اور ان میں بھی بہت سی اقسام ہوتی تھیں۔ اب تو بلیو ٹوتھ ڈیوائس ہے اسے جوڑو (کنیکٹ) کرو اور موجاں کرو۔
بہرحال ہم وہ لوگ تھے جو ٹیپ ریکارڈ سے بھی لطف اندوز ہوئے اور نئی ڈیوائسز کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button