
علامہ اقبال پر مضمون، ہم نے انکا تعارف، شخصیت اور حالات زندگی کا مختصر جائزہ لیا ہے اور انکے پیغام پر بھی کی ہے
علامہ محمد اقبال برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسا نام ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے بلکہ ان کے خیالات اور خدمات سے پوری دنیا متاثر ہوئی ہے۔ وہ شاعر، فلسفی، معلم، اور رہنما تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ قوم کی رہنمائی اور ترقی کے لیے وقف کیا۔
ابتدائی زندگی اور بچپن
علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ نور محمد ایک نہایت دیندار اور نیک انسان تھے، جنہوں نے اقبال کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اقبال کا بچپن سادگی اور علم کی جستجو سے بھرپور تھا۔
ابتدائی تعلیم کے دوران ہی ان کی ذہانت اور محنت نمایاں ہونے لگی۔ سیالکوٹ کے مشن ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد، انہوں نے مرے کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں ان کی ملاقات مولوی میر حسن جیسے شفیق استاد سے ہوئی، جنہوں نے اقبال کی ذہانت کو مزید نکھارا۔
اعلیٰ تعلیم اور بیرونِ ملک سفر
اقبال کا علم کا سفر سیالکوٹ تک محدود نہ رہا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اقبال کی جستجو انہیں یورپ لے گئی، جہاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
یورپ میں قیام کے دوران، انہوں نے مغربی تہذیب و ثقافت کو گہرائی سے سمجھا۔ یہی وہ دور تھا جب اقبال کے خیالات میں مزید پختگی آئی اور ان کی شاعری میں ایک نئی روح پیدا ہوئی۔
شاعری کا آغاز
اقبال کی شاعری ان کے دل کی آواز اور قوم کی امنگوں کا آئینہ تھی۔ ان کے اشعار میں نہ صرف جذبات بلکہ فکری گہرائی اور عمل کی ترغیب بھی ملتی ہے۔
اقبال کی ابتدائی شاعری فطرت اور رومانویت کے گرد گھومتی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں ایک انقلابی روح پیدا ہوئی۔ ان کی نظم "شکوہ” اور "جوابِ شکوہ” نے مسلمانوں کے جذبات کو نئی زندگی دی۔ ان کے فلسفیانہ خیالات نے ان کی شاعری کو منفرد بنا دیا، اور وہ ہر نسل کے لیے مشعلِ راہ بنے۔
شاعری اور فلسفۂ خودی
اقبال کے فلسفۂ خودی نے ان کی شاعری کو ایک نیا انداز دیا۔ ان کا پیغام تھا کہ انسان اپنی تقدیر خود بنا سکتا ہے اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو پہچانے اور ان پر بھروسہ کرے۔ وہ خودی کو اللہ سے تعلق اور انسان کی روحانی ترقی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے یہ خیالات نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہیں کہ محنت، خوداعتمادی، اور ایمان کے ساتھ کوئی بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی میدان میں کردار
اقبال کا نام صرف شاعری اور فلسفے تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے عملی سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ 1930 کی مشہور الہ آباد کانفرنس میں، اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا، جو بعد میں قیامِ پاکستان کی بنیاد بنا۔
اقبال نے مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی۔ وہ ہمیشہ اتحاد، بھائی چارے، اور آزادی پر زور دیتے تھے۔ ان کی بصیرت نے قوم کو ایک نیا حوصلہ دیا اور آزادی کی جدوجہد کو ایک واضح سمت عطا کی۔
اقبال کی زندگی کی اہم کامیابیاں
- 1922 میں، برطانوی حکومت نے اقبال کو ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں "سر” کے خطاب سے نوازا۔
- انہوں نے کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں مسلمانوں کے مسائل پر روشنی ڈالی اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔
- اقبال انجمن حمایت اسلام کے صدر بھی رہے، جہاں انہوں نے تعلیم اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو فروغ دیا۔
تعلیم کے فروغ میں کردار
اقبال کا ایک اہم مقصد قوم کی تعلیم کو بہتر بنانا تھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ علم ہی قوموں کی ترقی کی کنجی ہے۔ انہوں نے انجمن حمایتِ اسلام کے تحت تعلیمی اداروں کے قیام میں حصہ لیا اور نوجوانوں کو جدید علوم کی طرف مائل کیا۔
طلبہ کے لیے اقبال کا پیغام
اقبال کا پیغام آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا ان کے دور میں تھا۔ ان کی شاعری ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم خود اپنی زندگی کے معمار ہیں۔ ان کے اشعار نوجوانوں کو محنت، خوداعتمادی، اور بلند خیالات اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
آخری ایام اور انتقال
علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کو لاہور میں وفات پا گئے۔ ان کی وفات قوم کے لیے ایک بڑا نقصان تھی، لیکن ان کے خیالات اور تعلیمات آج بھی زندہ ہیں۔ ان کا مزار لاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب واقع ہے، جہاں لوگ ان کی عظمت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔
اقبال کی زندگی سے سبق
علامہ اقبال کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ علم، محنت، اور عزم کے ذریعے کسی بھی مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خیالات اور شاعری ہمارے لیے ایک ایسی روشنی ہیں جو ہر اندھیرے کو دور کر سکتی ہے۔
اقبال کا پیغام ہے کہ اپنی خودی کو پہچانو، اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھو، اور اپنی منزل کے حصول کے لیے مسلسل محنت کرو۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جن کی مثالیں صدیوں تک دی جاتی رہیں گی۔