اردو کہانیاں

فرض کی پکار

کسی گاؤں میں ایک زمیندار رہتا تھا اس کے پاس بہت  زمین تھی اور اس میں دھان کی کھیتی ہوتی تھی۔ اس مرتبہ دھان کی کھیتی بہت اچھی ہوئی۔ زمیندار نے کھیتوں کے چاروں طرف دھان کی حفاظت کے لیے باڑھ لگو ادی اور کھیت کی رکھوالی کے لیے تین نوکر رکھ دے۔ کھیت سے کچھ دور برگد کا ایک درخت تھا درخت پر بہت سے طوطے رہتے تھے ان میں سے ایک طوطے کا نام راجا تھا۔ جب راجا بوڑھا اور لاچار ہو گیا تو اس نے اپنے خاندان کی ذمے داری اپنے بڑے بیٹے کو سونپ دی اور خود باہر جانا بند کر دیا۔ 

اب راجا کا بیٹا ادھر ادھر جاتا، پیٹ بھر خود کھاتا اور پھر اپنے ماں باپ کے لیے چونچ میں بھر کر لے آتا۔ ایک دن کی بات ہے راجا کا بیٹا اپنے دوسرے ساتھیوں (طوطوں) کے ساتھ اس زمیندار کے کھیت میں دھان چکنے پہنچا سب نے پیٹ بھر کر کھایا جب واپس لوٹنے لگے تو طوطے کے بیٹے نے ہمیشہ کی طرح اپنی چونچ میں دھان کی بالیاں لے لیں۔ پھر روز طوطوں کا پھیرا اس کھیت میں لگنے لگا۔ 

کھیت کے رکھوالے کو بڑی فکر ہوئی ان میں سے ایک محافظ نے جا کر سارا قصہ زمیندار کو سنایا کھیت میں دھان تیار ہو گئے ہیں لیکن طوطے انھیں اجاڑ ڈال رہے ہیں۔ 

اس لیے میں آج آپ کے پاس خبر دینے آیا ہوں۔ میں انھیں بہت اڑاتا ہوں پر وہ نہیں اڑتے۔ ان میں ایک طوطا بہت خوبصورت ہے۔ لیکن وہ بہت چالاک ہے خوب پیٹ بھر کر کھاتا ہے اور لوٹتے وقت بہت سی بالیاں چونچ میں دبا کر لے جاتا ہے۔ 

اس پر زمیندار نے کہا تو ایسا کرو جال کھیت میں لگا کراس خوبصورت طوطے کو پکڑ کر میرے پاس لے آؤ۔ 

رکھوالے نے اگلے دن کھیت میں جال لگا دیا اور ہمیشہ کی طرح طوطے کھیت میں دانا چگنے آئے لیکن واپس جاتے وقت اس طوطے کے بیٹے اور دو تین دوسرے طوطوں کا پیر اس جال میں پھنس گیا رکھوالے نے انھیں پکڑ لیا باقی طوطوں کو چھوڑ دیا اور اس خوبصورت طوطے کو اپنے مالک کے پاس لے گیا۔ 

طوطے کو دیکھ کر زمیندار بہت خوش ہوا اس نے طوطے کو اپنی گود میں بٹھایا اور اس کے پروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا اے طوطے ! دوسرے طوطوں کا پیٹ تو پیٹ ہی ہے لیکن لگتا ہے تیرا پیٹ تو کنواں ہے۔ شاید اسی لیے پیٹ بھر چگنے کے بعد بھی تو اپنی چونچ میں دھان کی بالیاں دبا کر لے جاتا ہے یہ تو کیوں کرتا ہے؟ کیا مجھ سے تجھے کچھ دشمنی ہے؟ تو مجھے سچ بتا دھان لے جا کر کہاں جمع کرتاہے۔ 

زمیندار کی تمام باتیں سن کر راجا طوطے کے بیٹے نے جواب دیا۔ 

اے زمیندار نہ میری تجھ سے کچھ دشمنی ہے اور نہ میں دھان کی بالیاں لے جا کر جمع کرتا ہوں، بات صرف اتنی ہے کہ دھان کی بالیاں لے جا کر میں اپنا فرض پورا کرتا ہوں۔ تاکہ میں خود غرض نہ کہلا سکوں۔ طوطے کے بیٹے کا جواب سن کر زمیندار کو بہت تعجب ہواز میندار نے پو چھا وہ کیسے؟۔ 

دیکھو میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کو کھلانا پلانا اور ان کی پرورش کرنا میرا فرض ہے تا کہ بڑے ہو کر وہ بھی اپنے فرض کو سمجھ سکیں میرے جو ماں باپ ہیں وہ بھی اب بوڑھے ہو گئے ہیں اور ان کی بھی زمہ داری مجھ پر ہے۔ 

میں ان کے کھانے پینے کا بندوبست خود کر تا ہوں اس لیے کہ یہ بھی میرا فرض ہے انہوں نے ہی میری پرورش کی مجھے کھلا پلا کر بڑا کیا اب وہ اس قابل نہیں رہے کہ اپنے کھانے پینے کا انتظام کر سکیں اس لیے اب ان کی دیکھ بھال کرنا میرا ہی فرض ہے اسی لیے میں اپنا پیٹ بھر کر اپنی چونچ میں بھی دھان کی بالیاں دبا کر لے 

جاتا ہوں۔ 

یہ کہہ کر طوطا زمیندار کی طرف دیکھنے لگا  زمیندار طوطے کی اس بات سے بہت متاثر ہوا اس نے طوطے کو اچھی طرح کھلا پلا کر چھوڑ دیا اب زمیندار بھی اپنے فرض سے اچھی طرح واقف ہو چکا تھا۔

✍️ محمد شاہد جمال

سکراول پورب، ٹانڈہ،  ضلع   امبیڈکر نگر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button