نعت شریف

ابھی تو لوٹا ہوں انکے در سے

ابھی تو لوٹا ہوں انکے در سے

 

ابھی تو لوٹا ہوں انکے در سے ابھی سے دل بیقرار کیوں ہے

ابھی تو ہر سو ہیں انکے جلوے ابھی ہجر کا شمار کیوں ہے

طوافِ کعبہ کی گہما گہمی سرور طیبہ کے رت جگوں کا
ابھی تو یادوں کے گل ہیں تازہ ابھی زوالِ بہار کیوں ہے

مدینے والے کی رحمتوں کے عرش کے والی کی بخششوں کے

ابھی تو ساغر چھلک رہے ہیں ابھی سے اترا خمار کیوں ہے

ابھی تو سانسوں میں موجزن ہے مہک مدینے کے بام و در کی
ابھی کیوں آنسو چھلک رہے ہیں ابھی سے خوں میں فشار کیوں ہے

ابھی نہ آنکھوں سے خون برسا ابھی تو محبوؔب کچھ صبر کر
ابھی تو گنتی کے دن ہیں گزرے ابھی سے اختر شمار کیوں ہے

متعلقہ مضامین

جواب دیں

Back to top button