شعراء

احمد فراز

احمد فراز

احمد فراز (یوم پیدائش 12 جنوری، 1931ء – یوم وفات 25 اگست، 2008ء) میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ  تھا 

احمد فراز نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کا نام احمد شاہ کوہاٹی  ہوتا تھا جو بعد میں فیض احمد فیض کےمشورے سے احمد فراز ہو گیا

احمد فراز کی مشہور غزلیں

  • سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
  • رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
  • اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
  • اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
  • زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
  • آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
  • سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
  • ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
  • دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
  • اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں
  • قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
  • اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
  • ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
  • عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
  • سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
  • اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
  • دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
  • جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
  • اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
  • کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
  • گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
  • روگ ایسے بھی غم یار سے لگ جاتے ہیں
  • تیری باتیں ہی سنانے آئے
  • قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
  • ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
  • یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
  • شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
  • اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
  • نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو
  • پھر اسی رہ گزار پر شاید
  • کٹھن ہے راہ گزر تھوڑی دور ساتھ چلو
  • تجھے ہے مشق ستم کا ملال ویسے ہی
  • تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست
  • ساقیا ایک نظر جام سے پہلے پہلے
  • جز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
  • اول اول کی دوستی ہے ابھی
  • تیرے قریب آ کے بڑی الجھنوں میں ہوں
  • ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
  • خاموش ہو کیوں داد جفا کیوں نہیں دیتے
  • ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
  • اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
  • میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
  • کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
  • تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
  • اس کا اپنا ہی کرشمہ ہے فسوں ہے یوں ہے
  • جب بھی دل کھول کے روئے ہوں گے
  • اب شوق سے کہ جاں سے گزر جانا چاہیئے
  • جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
  • منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
  • یوں ہی مر مر کے جئیں وقت گزارے جائیں
  • مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے
  • وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
  • تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
  • عجب جنون مسافت میں گھر سے نکلا تھا
  • نہ دل سے آہ نہ لب سے صدا نکلتی ہے
  • دل گرفتہ ہی سہی بزم سجا لی جائے
  • مستقل محرومیوں پر بھی تو دل مانا نہیں
  • ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
  • یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
  • نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
  • گلہ فضول تھا عہد وفا کے ہوتے ہوئے
  • لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
  • سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
  • اب کیا سوچیں کیا حالات تھے کس کارن یہ زہر پیا ہے
  • ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
  • جان سے عشق اور جہاں سے گریز
  • یوں تو پہلے بھی ہوئے اس سے کئی بار جدا
  • گماں یہی ہے کہ دل خود ادھر کو جاتا ہے
  • ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
  • دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا
  • وہ دشمن جاں جان سے پیارا بھی کبھی تھا
  • کہا تھا کس نے کہ عہد وفا کرو اس سے
  • یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
  • خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
  • سب قرینے اسی دل دار کے رکھ دیتے ہیں
  • تڑپ اٹھوں بھی تو ظالم تری دہائی نہ دوں
  • ہم بھی شاعر تھے کبھی جان سخن یاد نہیں
  • جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
  • کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
  • فقیہ شہر کی مجلس سے کچھ بھلا نہ ہوا
  • دل بدن کا شریک حال کہاں
  • جب تجھے یاد کریں کار جہاں کھینچتا ہے
  • چل نکلتی ہیں غم یار سے باتیں کیا کیا
  • بھید پائیں تو رہ یار میں گم ہو جائیں
  • عشق نشہ ہے نہ جادو جو اتر بھی جائے
  • اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
  • نظر بجھی تو کرشمے بھی روز و شب کے گئے
  • مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
  • پیام آئے ہیں اس یار بے وفا کے مجھے
  • کل ہم نے بزم یار میں کیا کیا شراب پی
  • یہ میں بھی کیا ہوں اسے بھول کر اسی کا رہا
  • جب ہر اک شہر بلاؤں کا ٹھکانہ بن جائے
  • سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے
  • جو قربتوں کے نشے تھے وہ اب اترنے لگے
  • وحشت دل صلۂ آبلہ پائی لے لے
  • نہ تیرا قرب نہ بادہ ہے کیا کیا جائے
  • ہر تماشائی فقط ساحل سے منظر دیکھتا
  • اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
  • سارا شہر بلکتا ہے
  • ہم تو خوش تھے کہ چلو دل کا جنوں کچھ کم ہے
  • چاک پیراہنیٔ گل کو صبا جانتی ہے
  • جب یار نے رخت سفر باندھا کب ضبط کا پارا اس دن تھا
  • جب تری یاد کے جگنو چمکے
  • غرور جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں
  • جاناں دل کا شہر نگر افسوس کا ہے
  • یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں
  • غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی
  • قرب جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا
  • چلے تھے یار بڑے زعم میں ہوا کی طرح
  • نوحہ گروں میں دیدۂ تر بھی اسی کا تھا
  • بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے
  • غیرت عشق سلامت تھی انا زندہ تھی
  • جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
  • سکوت شام خزاں ہے قریب آ جاؤ
  • منزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں
  • رات کے پچھلے پہر رونے کے عادی روئے
  • کشیدہ سر سے توقع عبث جھکاؤ کی تھی
  • جو بھی درون دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
  • نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے
  • یہ طبیعت ہے تو خود آزار بن جائیں گے ہم
  • کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا
  • ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
  • وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا
  • ترا قرب تھا کہ فراق تھا وہی تیری جلوہ گری رہی
  • ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
  • تھا کوئی یا نہیں تھا جو کچھ تھا
  • پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
  • قامت کو تیرے سرو صنوبر نہیں کہا
  • نہیں کہ نامہ بروں کو تلاش کرتے ہیں
  • سوئے فلک نہ جانب مہتاب دیکھنا
  • تھا عبث ترک تعلق کا ارادہ یوں بھی
  • نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
  • تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
  • اک بوند تھی لہو کی سر دار تو گری
  • ہر کوئی طرۂ پیچاک پہن کر نکلا
  • شگفت گل کی صدا میں رنگ چمن میں آؤ
  • اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے
  • وہ تفاوتیں ہیں مرے خدا کہ یہ تو نہیں کوئی اور ہے
  • ہم اپنے آنسوؤں کا افسانہ کیا سنائیں
  • معاف کر مری مستی خدائے عز و جل
  • ردائے زخم ہر گل پیرہن پہنے ہوئے ہے
  • بے نیاز غم پیمان وفا ہو جانا
  • دل میں اب طاقت کہاں خوں نابہ افشانی کرے
  • بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
  • افعی کی طرح ڈسنے لگی موج نفس بھی
  • تپتے صحراؤں پہ گرجا سر دریا برسا

شعری مجموعے

  1. تنہا تنہا
  2. دردِ آشوب
  3. شب خون
  4. نایافت
  5. میرے خواب ریزہ ریزہ
  6. بے آواز گلی کوچوں میں
  7. نابینا شہر میں آئینہ
  8. پسِ اندازِ موسم
  9. سب آوازیں میری ہیں
  10. خوابِ گُل پریشاں ہے
  11. بودلک
  12. غزل بہانہ کروں
  13. جاناں جاناں
  14. اے عشق جنوں پیشہ

جواب دیں

Back to top button