
آج کی کہانی کا عنوان ہے "ایفائے عہد پر کہانی”۔ یہ ایک دیانت دار شخص کی کہانی ہے جو اپنے وعدے کو ہر حال میں نبھاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایمانداری اور سچائی پر قائم رہے تو نہ اس کی صرف عزت بڑھتی ہے وہ بلکہ دوسروں کا اعتماد بھی حاصل کرتا ہے۔ اس لئے وعدہ ہمیشہ پورا کرنا چاہیے اور دوسروں کی امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ دیانت دار لوگ دنیا میں عزت اور بھروسہ حاصل کرتے ہیں، جبکہ وعدہ خلافی کرنے والے آخرکار نقصان اٹھاتے ہیں۔ تو چلیں شروع کرتے ہیں آج کی کہانی
کسی گاؤں میں ایک نیک دل اور ایماندار شخص رہتا تھا، جس کا نام رشید تھا۔ دیانت داری اور وعدے کی پاسداری اس کی پہچان تھی۔ گاؤں کے لوگ اس پر اعتماد کرتے اور اپنی قیمتی چیزیں امانت کے طور پر اس کے پاس رکھواتے۔ وہ ہمیشہ یہ یقین رکھتا کہ جو وعدہ کیا جائے، اسے پورا کرنا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ یہی انسان کی عزت اور سچائی کی پہچان ہے۔
ایک دن اس کے دوست سلیم نے اس سے ملاقات کی اور کہا کہ اسے شہر جانا ہے اور چند سونے کے سکے اس کے پاس امانت رکھوانے ہیں۔ رشید نے بلا جھجک امانت قبول کر لی اور یقین دلایا کہ جب بھی وہ واپس آئے گا، اسے اس کے سکے واپس مل جائیں گے۔ سلیم نے رشید پر بھروسا کرتے ہوئے سکے اس کے حوالے کیے اور شہر روانہ ہو گیا۔ رشید نے ان سکوں کو ایک مضبوط بکسے میں رکھ کر الماری میں محفوظ کر دیا تاکہ وہ ہر طرح سے محفوظ رہیں۔
چند ماہ گزر گئے اور سلیم کی کوئی خبر نہ آئی۔ رشید اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول ہو گیا، لیکن اچانک اسے مالی مشکلات نے گھیر لیا۔ کاروبار میں نقصان ہو رہا تھا، قرض بڑھتا جا رہا تھا اور اخراجات پورے کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایک دن جب الماری کھولی تو وہ سکے چمکتے نظر آئے۔
ایک لمحے کے لیے یہ خیال آیا کہ اگر یہ سکے استعمال کر لیے جائیں تو مالی پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ لیکن فوراً اسے اپنے وعدے کا خیال آیا۔ دل و دماغ میں کشمکش شروع ہو گئی۔ اگر یہ سکے استعمال کر لیے جائیں تو شاید بعد میں لوٹائے جا سکتے ہیں، مگر کیا یہ صحیح ہوگا؟ اس کی دیانت داری کا اصل امتحان یہی تھا۔
ایک رات اس کا پرانا دوست اکرم اس کے پاس آیا۔ رشید نے اپنی مشکلات کے بارے میں بتایا تو اکرم نے مشورہ دیا کہ سکوں کو کاروبار میں لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی منافع ہو، سلیم کو اس کی رقم واپس کر دی جائے۔ یہ سن کر رشید سوچ میں پڑ گیا۔ کیا واقعی ایسا کرنا ٹھیک ہوگا؟
رشید نے کچھ دیر غور کیا اور پھر فیصلہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ کیونکہ وعدے اور امانت میں خیانت کرنا سب سے بڑی بددیانتی ہے۔ اس نے اکرم کو نرمی سے جواب دیا کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا، کیونکہ امانت میں خیانت کر کے وہ اپنی عزت اور سچائی کھونا نہیں چاہتا۔
کچھ دن بعد سلیم گاؤں واپس آیا۔ وہ سیدھا رشید کے پاس پہنچا اور خوش اخلاقی سے ملا۔ پھر اس نے اپنی امانت کے بارے میں پوچھا۔ رشید نے بغیر کسی تاخیر کے الماری سے بکسہ نکالا اور سلیم کو دے دیا۔ سلیم نے خوش ہو کر سکے گنے اور رشید کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن جب اسے رشید کی مالی مشکلات کا پتہ چلا تو وہ حیران رہ گیا کہ اس نے اپنی تنگدستی کے باوجود امانت میں خیانت نہیں کی۔
سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا، "تم نے اپنی ایمانداری کا ثبوت دے دیا۔ اگر تم چاہتے تو یہ سکے استعمال کر سکتے تھے، لیکن تم نے ایفائے عہد کو ترجیح دی۔ یہی اصل دیانت داری ہے۔” پھر اس نے رشید کی مدد کرنے کے لیے مزید سکے دیے اور کہا کہ جب حالات بہتر ہو جائیں تو وہ یہ قرض واپس کر سکتا ہے۔ رشید کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے شکرگزاری کے ساتھ وہ سکے قبول کیے اور دل میں تہیہ کر لیا کہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے، وہ سلیم کا قرض ضرور چکائے گا۔
یہ کہانی سکھاتی ہے کہ ایفائے عہد یعنی وعدے کی پاسداری سب سے بڑی نیکیوں میں سے ایک ہے۔ جو شخص دیانت داری اور سچائی پر قائم رہتا ہے، وہ ہمیشہ دوسروں کا اعتماد جیت لیتا ہے اور عزت حاصل کرتا ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، وعدے کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
دیانت دار لوگ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور ان کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ جبکہ وہ لوگ جو دوسروں کی امانت میں خیانت کرتے ہیں، آخرکار نقصان اٹھاتے ہیں۔ وعدہ نبھانے والے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوتے ہیں۔
تو بچوں کیسی لگی ایفائے عہد پر کہانی ؟ ۔ امید ہے سب کو پسند آئی ہو گی اور آپ سب نے اس کہانی سے سبق بھی سیکھا ہو گا