
آج ہم آپ کو "لومڑی اور انگور ” کی دلچسپ کہانی سنانے جا رہے ہیں، جسے "انگور کھٹے ہیں کہانی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کہانی میں ایک چالاک لومڑی کی کوششوں کا ذکر ہے، جو انگور کھانے کی خواہش رکھتی ہے لیکن جب کامیاب نہیں ہو پاتی تو ایک بہانہ بنا لیتی ہے۔ "انگور کھٹے ہیں” کی یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ محنت ترک کرنا اور بہانے بنانا درست نہیں۔ "انگور کھٹے ہیں کہانی” کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ ناکامی کو قبول کر کے اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے، نہ کہ خود کو تسلی دینے کے لیے بہانے تراشنے چاہیے۔ تو چلیں کہانی شروع کرتے ہیں
گرمیوں کی ایک دوپہر تھی، سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ جنگل کے ایک کنارے ایک لومڑی دھیرے دھیرے چل رہی تھی۔ بھوک سے نڈھال، وہ کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھی جس سے اپنی بھوک مٹا سکے۔ جنگل میں کئی درخت اور پودے تھے، مگر اسے کہیں بھی کھانے کے لیے کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ چلتے چلتے وہ ایک باغ کے قریب پہنچی، جہاں مختلف پھلوں کے درخت لگے ہوئے تھے۔
اچانک، اس کی نظر ایک انگور کی بیل پر پڑی، جو باغ کی دیوار سے لٹک رہی تھی۔ سرخ اور رسیلے انگور دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ اس نے سوچا، "اگر یہ انگور مجھے مل جائیں تو میری بھوک مٹ سکتی ہے اور میں تازہ دم ہو سکتی ہوں۔”
لومڑی نے قریبی زمین کا جائزہ لیا اور اچھل کر انگوروں تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن وہ کافی اونچائی پر تھے۔ اس نے ایک اور کوشش کی، پھر دوسری، پھر تیسری، مگر ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی ٹانگیں تھکنے لگیں، مگر انگور اب بھی اس کی پہنچ سے دور تھے۔
تھک ہار کر وہ ایک لمحے کے لیے بیٹھ گئی اور گہری سانس لینے لگی۔ پھر اس نے سوچا، "شاید مجھے مزید زور لگا کر اچھلنا چاہیے۔” اس نے اپنی پوری طاقت جمع کی اور جست لگائی، مگر نتیجہ وہی رہا۔ انگور اب بھی اس کے ہاتھ نہ آ سکے۔
کئی بار کی ناکامی کے بعد لومڑی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ غصے میں بڑبڑانے لگی، "یہ انگور ویسے بھی کھٹے ہوں گے! اگر میں انہیں کھاتی تو شاید مجھے مزہ بھی نہ آتا۔ یہ میری بھوک مٹانے کے قابل ہی نہیں۔”
یہ کہہ کر وہ مڑی اور باغ سے نکل کر جنگل کی طرف واپس چل پڑی۔ اس کا پیٹ اب بھی خالی تھا، مگر اس نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے خود کو تسلی دی کہ انگور کھٹے تھے۔
انگور کھٹے ہیں کہانی، ہمیں ایک بہت اہم سبق سکھاتی ہے۔ اکثر جب ہمیں کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی یا ہم کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے، تو ہم اسے کمتر سمجھ کر خود کو تسلی دینے لگتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناکامی کو قبول کرنا اور مزید محنت کرنا ہی اصل کامیابی کی نشانی ہے۔ اگر لومڑی ہمت نہ ہارتی اور کوئی اور راستہ تلاش کرتی، تو شاید وہ ان انگوروں تک پہنچ جاتی۔ ہمیں بھی اپنی ناکامیوں پر مایوس ہونے کے بجائے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے، کیونکہ کامیابی ان ہی کے قدم چومتی ہے جو محنت سے پیچھے نہیں ہٹتے۔