استاد پر شاعری – عظمت، احترام اور جدائی پر بہترین اشعار
Teacher Poetry in Urdu | استاد پر اشعار کا خوبصورت مجموعہ

یہ پوسٹ استاد پر شاعری کے بہترین انتخاب پر مشتمل ہے، جس میں استاد پر اشعار، استاد کا مقام، استاد کی عظمت، اور استاد کی جدائی جیسے موضوعات کو خوبصورت الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔ یہاں آپ کو استاد پر غزل، استاد پر نظم، اور یومِ استاد پر شاعری بھی ملے گی، جو استاد کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔
استاد پر اشعار
اگر آپ استاد کی تعریف پر مضمون، استاد کی موت پر اشعار، استاد کی شان اور استاد پر بہترین شعر تلاش کر رہے ہیں، تو اس پوسٹ میں آپ کو تمام ایسے اشعار ملیں گے۔ ایک شاگرد جانتا ہے کہ استاد وہ عظیم ہستی ہے جو زندگی کو روشنی بخشتی ہے، اور اس کی جدائی ایک گہرا زخم چھوڑ جاتی ہے۔ اسی عقیدت و محبت کو احترامِ استاد پر اشعار اور الوداع استاد پر اشعار میں بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
آپ استاد ہیں آپ سے پیار ہے
آپ کے دم سے دل میرا سرشار ہے
آپ سے ہی میرا ذہن بیدار ہے
آپ کا ہر لفظ میرا معمار ہے
,سبق پڑھ کر پڑھا دینا ہنر ھے عام لوگوں کا۔جو دل سے دل ملاتے ہیں انہیں استاد کہتے ہیں
تعلیم کو لکھیں گے اگر تاج محل ہم
اس پیکر تدریس کو محراب لکھیں گے
دیکھانہ کوہکن کوئی استاد کے بغیر
آتانہیں ہے فن کو ئی استاد کے بغیر
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
دوستو ملے کبھی تو یہ پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
استاد کی عظمت کو ترازومیں نہ تولو
استادتو ہر دور میں انمول رہا ہے۔
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
فہم و دانائی و ہنر کا آسماں اُستاد ہے
علم و حکمت کی یقینا کہکشاں اُستاد ہے
غور کر ناداں کہ تو بھی عزتِ اُستاد پر
جہل کی تاریکیوں میں ضوفشاں اُستاد ہے
تیری حیات کا ہر لمحہ شادماں گزرے
بہار سجدہ کرے تو جہاں جہاں گزرے
خدا نصیب کرے تجھ کو دائمی خوشیاں
تو سرخ رُو رہے جب کوئی امتحاں گزرے
یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
بس استاد ہی فکر مند ہے سب کے عروج کے لیےیہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
کیا کہیں کتنے ہی نکتے ہیں جو برتے نہ گئےخوش بدن عشق کریں اور ہمیں استاد رکھیں
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میںبے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تکحسرت موہانی
فہرست بنانے چلی تھی اساتذہ کیوقت …… سب سے بڑا اُستاد نکلا
احترام استاد پر اشعار
استاد وہ ہستی ہے جس کے قدموں میں علم کی جنت چھپی ہوتی ہے، اور اسی لیے احترامِ استاد صرف ایک رسم نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اُٹھنے والا جذبہ ہے۔ استاد کا رتبہ کبھی وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتا، بلکہ جیسے جیسے زندگی آگے بڑھتی ہے، ان کی دی گئی نصیحتیں اور سکھائے گئے سبق مزید واضح ہوتے جاتے ہیں۔ احترام استاد پر اشعار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ علم صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ استاد کے چہرے، باتوں اور خاموشی میں بھی ہوتا ہے۔ اردو ادب میں جب بھی استاد کا ذکر آیا، اسے ہمیشہ عزت، وقار اور وقار کے ساتھ یاد کیا گیا۔
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت
ہماری درسگاہوں میں جو یہ اُستاد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں
ملا استاد عشق سے عبّاس کو یہ درس
سبھی کچھ لٹا کے بھی مسکراتے رہنا
یوم استاد پر شاعری (یوم اساتذہ )
شاگرد چاہے کتنا ہی قابل ہو جائے، اگر وہ استاد کا ادب نہ کرے تو اُس کی قابلیت ادھوری رہتی ہے۔ استاد کا احترام صرف کلاس روم کی حدود تک محدود نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کا اثر نظر آتا ہے۔ احترامِ استاد پر اشعار اردو شاعری میں وہ سچائیاں چھپی ہوتی ہیں جو صرف ایک شاگرد ہی محسوس کر سکتا ہے۔ چاہے یومِ استاد ہو یا کوئی عام دن، استاد کا نام عزت سے لینا اور ان کے لیے دعائیں کرنا ہی اصل کامیابی کی علامت ہے۔ شاعر جب استاد کے لیے لکھتا ہے، تو اس کے الفاظ خالص ہوتے ہیں – ادب، عقیدت اور دل سے نکلے ہوئے۔
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارےاستاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہکان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
میرے استاد نے اکثر یہ کہا ہے مجھ سےوقت جیسا کوئی استاد نہیں ہو سکتاسید سروش آصف
اہل بینش کو ہے طوفان حوادث مکتبلطمۂ موج کم از سیلئ استاد نہیں
استاد کی جدائی پر اشعار
استاد کی جدائی ایک ایسی خاموشی ہے جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ وہ آواز، جو کبھی نصیحت بن کر دل کو چھوتی تھی، اب صرف یادوں میں گونجتی ہے۔ استاد کی جدائی پر اشعار پڑھ کر دل عجیب سا بوجھ محسوس کرتا ہے، جیسے زندگی کا ایک اہم ستون ٹوٹ گیا ہو۔ وہ جو کبھی علم کا چراغ ہوا کرتے تھے، اب ان کی جگہ صرف اندھیرے اور خاموشی نے لے لی ہے۔ ان اشعار میں صرف الفاظ نہیں، آنکھوں کے آنسو، دل کی سسکیاں، اور شکرگزاری کی وہ کیفیت چھپی ہوتی ہے جو صرف سچا شاگرد محسوس کرتا ہے۔
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اسی چاند کی ، جو تہہ مزار چلا گیا
بچھڑا کُچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔
کس طرح امانتؔ نہ رہوں غم سے میں دلگیرآنکھوں میں پھرا کرتی ہے استاد کی صورت
عظمت استاد پر اشعار
استاد کی عظمت وہ سورج ہے جس کی روشنی ہمیشہ قائم رہتی ہے، چاہے وقت بدل جائے یا زمانے کا رنگ۔ استاد صرف کتابی علم نہیں دیتا، وہ زندگی کی حقیقتوں سے آشنا کرتا ہے، خوابوں کو حقیقت بنانا سکھاتا ہے، اور گرنے پر ہاتھ تھام کر اُٹھاتا ہے۔ عظمت استاد پر اشعار میں اسی روشنی، اسی قربانی، اور اسی بے لوث خدمت کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے اشعار دل کو چھو لیتے ہیں کیونکہ ان میں صرف الفاظ نہیں، ایک نسل کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے والی شخصیت کی عظمت چھپی ہوتی ہے۔
ایک معلم ہی توعرفان خدادیتاہے
فرد کونفس کی پہچان کرادیتا ہے
بہت عام نظر آنے والے بہت خاص ہوتے ہیںاساتذہ کرام ہی کامیابیوں کا راز ہوتے ہیں
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کاوہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
یہی رکھتے ہیں شہرِ علم کی ہر راہ کو روشن
ہمیں منزل پہ پہنچا کر یہ کتنا شاد ہوتے ہیں
جس نے لکھنا سکھایا خ سے خدا
بڑھ کے اس ہاتھ ہم قلم چوم لیںکیا کریں اپنے ٹیچر کی عظمت بیا ں
جی میں آ تا ہے ان کے قد م چو م لیں
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
استاد اور شاگرد پر اشعار
استاد اور شاگرد کا رشتہ صرف کتابوں اور اسباق تک محدود نہیں ہوتا، یہ ایک ایسا تعلق ہے جس میں علم، تجربہ، خلوص اور اعتماد کا امتزاج ہوتا ہے۔ استاد صرف پڑھاتا نہیں، بلکہ شاگرد کی سوچ بدلتا ہے، اسے وہ زاویہ دیتا ہے جس سے دنیا واضح نظر آتی ہے۔ استاد اور شاگرد پر اشعار اسی انمول رشتے کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں ایک طرف استاد کی رہنمائی ہے، تو دوسری جانب شاگرد کی خاموش عقیدت۔ یہ اشعار ایک ایسی گفتگو ہیں جو دل سے نکلتی ہے اور دل تک پہنچتی ہے۔
وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔجو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
میرے استاد نے اک دیپ روشن کیا تھا سچائی کااب ہر راہ میں اجالے میرے قدم چومتے ہیں
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آجکی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔاستادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
اب مجھے مانیں نہ مانیں اے حفیظؔمانتے ہیں سب مرے استاد کو
جتنی بھی زمانے سے مجھے داد مِلی ہے
میرا ایماں ہے کہ سب باعثِ استاد مِلی ہے
اگر رُوحانیّت سے باہمی رِشتہ جُڑے واصف
تو پھر شاگرد بھی اُستاد کی اولاد ہوتے ہیں
جو کرتے ہیں ادَب اُستاد کا پاتے ہیں وہ رِفعَت
جو اِن کے بے ادَب ہوتے ہیں وہ برباد ہوتے ہیں
استاد کا شکریہ پر اشعار
کبھی کبھی ہم الفاظ میں نہیں کہہ پاتے کہ ہمارے استاد نے ہمارے لیے کیا کچھ کیا، لیکن شاعری وہ ذریعہ بن جاتی ہے جو دل کی بات کہہ دیتی ہے۔ استاد کا شکریہ پر اشعار اردو ادب میں محبت، عقیدت اور شکرگزاری کا حسین امتزاج ہوتے ہیں۔ ایک اچھا شاگرد جانتا ہے کہ کامیابی صرف اپنی محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ کسی استاد کی رہنمائی، دعاؤں اور صبر کا بھی صلہ ہے۔ ایسے اشعار استاد کے لیے ایک تحفہ ہوتے ہیں، جو نہ صرف ان کے دل کو چھو لیتے ہیں بلکہ ان کی عظمت کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔
سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کر دیاشمع علم و آگہی سے دل منور کر دیا
کتنی محنت سے پڑھاتے ہیں ہمارے استادہم کو ہر علم سکھاتے ہیں ہمارے استادتوڑ دیتے ہیں جہالت کے اندھیروں کا طلسمعلم کی شمع جلاتے ہیں ہمارے استاد
اساتذہ نے مرا ہاتھ تھام رکھا ہے
اسی لئے تو میں پہنچا ہوں اپنی منزل پر
استاد کی موت پر اشعار
جب ایک استاد اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے، تو صرف ایک شخص نہیں جاتا، ایک عہد ختم ہو جاتا ہے۔ وہ جو برسوں تک علم بانٹتا رہا، زندگی کے پیچیدہ سوالوں کے آسان جواب دیتا رہا، جب خاموش ہو جاتا ہے تو ایک عجیب سا سناٹا ہر شاگرد کے دل میں گھر کر لیتا ہے۔ استاد کی موت پر اشعار اس سناٹے کو لفظوں میں ڈھالنے کی ایک کوشش ہوتے ہیں۔ ان اشعار میں صرف سوگ نہیں، وہ شکر بھی شامل ہوتا ہے جو ایک شاگرد اپنے استاد کی بے لوث رہنمائی کے لیے دل سے محسوس کرتا ہے۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کا اب تک یقین نہیں ہے
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
الوداع استاد پر اشعار
استاد کا الوداع کہنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ وہ جو برسوں ہماری راہوں کے رہبر رہے، جنہوں نے خواب دیکھنا اور انہیں سمجھنا سکھایا، جب ہمیں چھوڑ کر جاتے ہیں تو دل میں عجیب سی خالی جگہ رہ جاتی ہے۔ الوداع استاد پر اشعار ان لمحوں کا عکس ہوتے ہیں جن میں ایک شاگرد اپنی آنکھوں کے نم گوشوں سے صرف "شکریہ” کہہ پاتا ہے۔ ان اشعار میں صرف فراق نہیں، ایک احساس ہوتا ہے کہ استاد اب بھی دعاؤں کی صورت ساتھ ہے — بس نظر نہیں آتا۔
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
تیرے اعمال ابد تک نہ مریں گے ہرگز
رہ نما ہے ترا نقشِ کفِ پا تیرے بعد
استاد کا مقام شاعری
استاد کا مقام الفاظ میں سمیٹنا شاید ممکن نہیں، لیکن پھر بھی شاعر نے ہمیشہ اپنی کوشش کی ہے کہ اس عظیم ہستی کو خراجِ تحسین پیش کرے۔ استاد کا مقام شاعری میں وہ احترام اور عقیدت جھلکتی ہے جو صرف ایک سچا شاگرد ہی محسوس کر سکتا ہے۔ یہ اشعار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ استاد صرف پڑھانے والا نہیں، بلکہ ایک رہنما، ایک محافظ، اور بعض اوقات ایک والد جیسا ہوتا ہے۔ ان کی باتیں، انداز، اور دعائیں انسان کی پوری زندگی پر اثر ڈالتی ہیں، اور یہی بات شاعری میں دل سے نکل کر صفحے پر اُترتی ہے۔
اساتذہ کی عظمت کا ہے مقام اور
دلوں میں شان اور آخرت میں مقام اور
کچھ وصف تو ہوتا ہے دماغوں میں دلوں میں
یوں ہی کوئی سقراط و سکندر نہیں ہوتا
میرا شمار پہلے کہیں پتھروں میں تھا
استاد نے تراش کے ہیرا بنادیا
عقل بھی خدا دیتا ہے رتبہ بھی خدا دیتا ہے
استاد وہ سمندر ہے جو دونوں کو بڑھا دیتا ہے
استاد کا احترام شاعری
استاد کا احترام کوئی رسمی سا عمل نہیں، بلکہ ایک ایسا جذبہ ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتا ہے۔ یہ وہ شخصیت ہے جس نے زندگی کو سمجھنے، سنوارنے اور سنبھالنے کا ہنر سکھایا۔ استاد کا احترام شاعری میں وہ عزت، وقار اور رشتے کی نزاکت جھلکتی ہے جو محض الفاظ سے نہیں، بلکہ دل کی سچائی سے محسوس ہوتی ہے۔ یہ اشعار یاد دلاتے ہیں کہ ادب صرف زبان کے الفاظ میں نہیں، نگاہ کے جھکنے، لہجے کے نرمی، اور دل کے خلوص میں بھی چھپا ہوتا ہے۔
دنیا میں انہی لوگون کی عزت ہوتی ہے
جنہوں نے اپنے استاد کا احترام کیا۔
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات
استاد پر مزاحیہ شاعری
شکوہ(طالب علم)
یوں جو فیل کرنا تھا پہلے ہی بتا دیتے
ہم ساری کتابوں کو ردی میں سجا دیتے
کوشش تو بہت کی تھی نا کام ہوئے پھر بھی
ہاں ہاس تو ہو جاتے جو نقل کرا دیتے
پرچے جو ملے ہم کو سب خالی دئیے ہم نے
اے کاش صفائی کے نمبر ہی دلا دیتےجواب شکوہ(استاد)
یوںض جو فیل ہونا تھا پہلے ہی بتا دیتے
ابا سے کیا ہوتا ٹھیلا ہی لگا دیتے
کوشش تو بہت کی تھی ناکام ہوئے پھر بھی
ہاں پاس تو کر دیتے اگر عقل لڑادیتے
پرچے جو ملے تم کو سب خالی دئیے تم نے
اے کاش سیاہی کے دھبے ہی لگا دیتے
حرف آخر
استاد پر شاعری علم، شفقت اور قربانی کا عکس ہوتی ہے، جہاں ہر مصرع استاد کی بے لوث محنت کا اظہار ہوتا ہے۔ استاد پر شعر ایک سادہ اور دل کی بات ہوتا ہے، جو استاد کی عظمت کو احترام اور محبت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
استاد کی تعریف محض علم تک محدود نہیں، بلکہ ان کے صبر، رہنمائی اور تربیت کا بھی شکر گزار ہونا ہے۔ استاد کی شان وقت کے ساتھ بڑھتی ہے، اور ان کی عزت اس بات میں جھلکتی ہے کہ وہ دوسروں کو علم کا نور دے کر خود پسِ پردہ رہتے ہیں۔ استاد کی شاعری میں یہی عظمت اور احترام صاف ظاہر ہوتا ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ استاد کا مرتبہ ہمیشہ بلند رہتا ہے۔