اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی میں توسیع وجوہات سامنے آ گئیں
اڈیالہ جیل میں قیدیوں سے ملاقاتوں پر عائد پابندی میں مزید دو روز کی توسیع کر دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، جیل میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی مسائل کے باعث ملاقاتوں کا سلسلہ روک دیا گیا ہے اور اس کا اطلاق نہ صرف عام قیدیوں بلکہ سیاسی قیدیوں پر بھی ہوگا۔ اس اقدام سے تمام قیدیوں کے لیے ملاقاتوں کی سہولت معطل کر دی گئی ہے۔
پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر 18 اکتوبر تک ملاقاتوں پر پابندی لگائی تھی، تاہم نئے سیکیورٹی خدشات سامنے آنے کے بعد اس پابندی میں مزید دو روز کی توسیع کر دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ جیل حکام اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان طویل مشاورت کے بعد کیا گیا ہے تاکہ جیل کے اندر اور باہر ممکنہ خطرات کا سدباب کیا جا سکے۔
اڈیالہ جیل کی انتظامیہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جیل کے اندرونی ماحول میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر یہ پابندی ضروری ہو گئی تھی۔ اس پابندی کے دوران کسی بھی قیدی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی، چاہے وہ سیاسی قیدی ہو یا عام شہری۔ یہ اقدام جیل میں سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال کو بہتر بنانے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے اس پابندی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر اسد قیصر، جو تحریک انصاف کے ایک سینئر رہنما ہیں، نے بانیٔ تحریک انصاف سے ملاقات پر عائد پابندی کو جمہوری اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کو اپنے قائدین سے دور کر دیتے ہیں، جو کہ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسد قیصر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سیاسی قیدیوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ نہ صرف ان کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش بھی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس پابندی کو ختم کرے اور سیاسی رہنماؤں کو اپنے قائدین سے ملاقات کا موقع فراہم کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہیں اور اس طرح کی پابندیاں ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔
اس پابندی کے بعد جیل میں قیدیوں کے اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ روابط مزید محدود ہو گئے ہیں، جس کے باعث ان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ کئی قیدیوں کے اہل خانہ نے اس فیصلے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد ملاقاتوں کی بحالی کے لیے اقدامات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے لیے اہل خانہ کے ساتھ ملاقاتیں نہ صرف جذباتی سہارا ہوتی ہیں بلکہ ان کے ذہنی سکون کے لیے بھی ضروری ہیں۔
دوسری جانب، عوامی سطح پر اس فیصلے کے خلاف ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ کئی سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے اس فیصلے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو ان کے اہل خانہ سے دور رکھنا کسی بھی صورت میں درست نہیں اور اس سے ان کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پابندی کے حوالے سے جیل حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک عارضی قدم ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے، ملاقاتوں پر سے پابندی ہٹا لی جائے گی۔ تاہم، اس دوران جیل کی اندرونی سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں گے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے بچا جا سکے۔