سپریم کورٹ کا نیب ترامیم بحال کرنے کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے نیب ترامیم کے حوالے سے دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل کو منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کو بحال کر دیا ہے، جس نے ایک بار پھر نیب کے دائرہ کار اور اس کی حدود کا تعین کر دیا ہے۔ اس فیصلے کی اہمیت اور اس کے قانونی و آئینی پہلوؤں پر بات کرنے سے پہلے، اس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ ترامیم کیوں اور کیسے سامنے آئیں، اور سپریم کورٹ کا اس معاملے میں کیا کردار رہا ہے۔
نیب ترامیم کا پس منظر
نیب (قومی احتساب بیورو) کا قیام 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ہوا، جس کا مقصد ملک سے بدعنوانی اور کرپشن کو ختم کرنا تھا۔ اس ادارے کو غیر معمولی اختیارات دیے گئے تھے تاکہ کرپشن میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نیب کے اختیارات اور اس کی فعالیت پر مختلف سیاسی و قانونی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ نیب پر الزامات لگائے گئے کہ وہ سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے اور اسے مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت نے 2022 میں نیب کے قوانین میں کچھ بنیادی ترامیم کیں، جن کا مقصد نیب کے اختیارات کو محدود کرنا اور اس کی تحقیقات کے دائرہ کار کو کم کرنا تھا۔ ان ترامیم میں کچھ اہم نکات یہ تھے:
– نیب اب صرف ان مقدمات کی تحقیقات کر سکتا ہے جن میں 50 کروڑ روپے یا اس سے زیادہ کی رقم شامل ہو۔
– نیب کی تحقیقات کی مدت بڑھا دی گئی، اور تحقیقات کے دوران ریمانڈ کی مدت کو زیادہ سے زیادہ 14 دن سے بڑھا کر 30 دن کر دیا گیا۔
– نیب کو وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی کرنے سے روک دیا گیا۔
– نیب کی حدود میں کچھ مخصوص ریگولیٹری ادارے شامل نہیں ہوں گے۔
نیب ترامیم کے خلاف مقدمہ
سابق وزیر اعظم عمران خان نے ان ترامیم کو چیلنج کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ ترامیم غیر آئینی ہیں اور ان کا مقصد بدعنوان عناصر کو بچانا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ نیب کے قوانین میں یہ تبدیلیاں احتساب کے عمل کو کمزور کر رہی ہیں اور بدعنوانی کو فروغ دے رہی ہیں۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان کے اس مقدمے کی سماعت کی اور 15 ستمبر 2023 کو نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے 10 میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قرار دیا۔ اس فیصلے کے بعد حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی، جس کا مقصد اس فیصلے کو چیلنج کرنا اور نیب ترامیم کو بحال کرنا تھا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 5-صفر سے یہ فیصلہ سنایا کہ نیب ترامیم کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کا کام قانون سازی کا جائزہ لینا نہیں ہے بلکہ قانون سازی کی اصل اتھارٹی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اپنے قوانین بنانے اور ان میں ترامیم کرنے کا حق حاصل ہے، اور جب تک کوئی قانون واضح طور پر آئین کے خلاف ثابت نہ ہو، عدالت کو اسے برقرار رکھنا چاہیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمران خان یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم آئین کے منافی ہیں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان کردار کی تقسیم آئین میں واضح طور پر بیان کی گئی ہے اور عدلیہ کو پارلیمان کی قانون سازی کے عمل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
نیب ترامیم کا جائزہ
نیب ترامیم کو بحال کرنے کے فیصلے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان ترامیم کے بعد نیب کا کردار کیا ہوگا اور ملک میں احتساب کے عمل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
1. نیب کا دائرہ اختیار
نیب کا دائرہ اختیار کم کرنے کی ترمیم کا مقصد یہ تھا کہ چھوٹے پیمانے پر کرپشن کے معاملات کو نیب کے حوالے نہ کیا جائے۔ اس سے نیب کو ان مقدمات پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا جن میں بڑی رقوم اور بڑے ملوث افراد شامل ہوں۔
2. تحقیقات کی مدت اور ریمانڈ
نیب کی تحقیقات کے دوران ریمانڈ کی مدت کو 14 دن سے بڑھا کر 30 دن کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ نیب کو کافی وقت مل سکے تاکہ وہ تفصیلی اور جامع تحقیقات کر سکے، جو کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کے مقدمات میں ضروری ہے۔
3. ٹیکس معاملات اور ریگولیٹری ادارے
نیب کو ٹیکس معاملات اور مخصوص ریگولیٹری اداروں کے خلاف کارروائی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ٹیکس اور ریگولیٹری خلاف ورزیوں سے متعلق مقدمات متعلقہ اداروں کے دائرہ کار میں آئیں گے، جو کہ ان معاملات کو بہتر طریقے سے دیکھ سکتے ہیں۔
نیب ترامیم کے قانونی و سیاسی اثرات
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف قانونی اعتبار سے اہم ہے بلکہ اس کے سیاسی اثرات بھی دور رس ہوں گے۔ نیب کو محدود کرنے کی یہ ترامیم حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفین کو تحفظ دینے کے الزام کا سبب بنی تھیں، لیکن سپریم کورٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قوانین میں ترامیم کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
یہ فیصلہ حکومت کے لیے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے، جبکہ عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے یہ ایک دھچکا ہے۔ نیب کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے کے بعد یہ بحث ایک بار پھر سامنے آئی ہے کہ کیا نیب واقعی بدعنوانی کے خلاف مؤثر ادارہ ہے یا اسے مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔
احتساب کا مستقبل
پاکستان میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہا ہے۔ نیب کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات نئی بات نہیں ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا نیب میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے یا نہیں۔
موجودہ نیب ترامیم نے احتساب کے عمل کو کچھ حد تک محدود کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کے مقدمات پر نیب کی توجہ مرکوز رہے۔ نیب کو اپنے ادارتی ڈھانچے میں مزید شفافیت اور احتساب کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس پر لگنے والے الزامات کو دور کیا جا سکے اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔
نتیجہ
سپریم کورٹ کا نیب ترامیم کو بحال کرنے کا فیصلہ ایک اہم موڑ ہے، جو ملک میں احتساب کے نظام اور نیب کی فعالیت کو نئی سمت دے گا۔ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا حق مقدم ہے اور عدالت کو صرف انہی معاملات میں مداخلت کرنی چاہیے جہاں واضح آئینی خلاف ورزی ہو۔
نیب ترامیم کا مقصد احتساب کے عمل کو مزید شفاف اور مؤثر بنانا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی نیب کو اپنی فعالیت کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکے۔ اس سلسلے میں مزید قانونی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نیب ایک غیرجانبدار اور مؤثر ادارہ بن سکے۔