سلمان اکرم راجہ کا حکومت پر دھونس اور جبر سے نمبرز پورے کرنے کا الزام
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے معروف رہنما، سلمان اکرم راجہ، نے حکومت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت ہمارے اراکین کو دھمکا کر اپنے ساتھ ملا لیتی ہے، تو ان کے پارلیمنٹ میں نمبرز پورے ہو جائیں گے۔ اس بیان نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، کیونکہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری تناؤ پہلے سے ہی شدید تھا۔
حکومتی ہتھکنڈے اور پی ٹی آئی کے الزامات
سلمان اکرم راجہ نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان کے ساتھ گفتگو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے دھونس اور دباؤ کے ذریعے اپنے نمبرز پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ حکومت کی حکمت عملی نہیں، بلکہ جمہوری اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
راجہ کا کہنا تھا کہ حکومت سپریم کورٹ کو بھی زیر کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے، جو ایک خطرناک مثال قائم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جیسے ادارے کو دباؤ میں لانا ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے اراکین کی گرفتاری
پاکستان تحریک انصاف کے 10 اراکین اسمبلی کو 9 ستمبر کی رات پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس واقعے نے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ سیاسی جماعتوں اور عوام کے اندر بھی غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے فوری نوٹس لیتے ہوئے سارجنٹ اور چار سکیورٹی اہلکاروں کو معطل کر دیا، جو اس گرفتاری میں ملوث تھے۔
سپیکر قومی اسمبلی کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی کو حکومت نے بھی محسوس کیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اقدام صرف عوامی دباؤ کی وجہ سے لیا گیا یا حکومت نے اپنی غلطیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔
پی ٹی آئی کے ارکان کی لاجز کو سب جیل قرار دینا
گزشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی نے پاکستان تحریک انصاف کے گرفتار 10 ارکان کے لاجز کو سب جیل قرار دے دیا تھا۔ اس اعلان کے ساتھ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا۔ یہ فیصلہ بھی پی ٹی آئی کی تحریک کو روکنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ واضح ہے کہ اس تمام صورتحال میں حکومتی فیصلے عوام کے سامنے سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ کیا یہ اقدامات قانونی ہیں؟ کیا حکومت آئینی حدود کو پار کر رہی ہے؟
وزیر دفاع خواجہ آصف کا ردعمل
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کل قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم پیش کی جائے گی، اور حکومت کے پاس اسے منظور کروانے کے لیے درکار نمبرز پورے ہیں۔
آئینی ترمیم اور پارلیمنٹ میں حکومتی طاقت
خواجہ آصف کا بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت اپنی سیاسی طاقت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے آئینی ترامیم کا سہارا لے رہی ہے۔ اگر حکومت واقعی میں نمبرز پورے کر چکی ہے تو یہ پی ٹی آئی کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا۔
سیاسی منظرنامہ اور عوام کی رائے
یہ تمام واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست ایک نازک موڑ پر ہے۔ عوام کی رائے منقسم ہے، کچھ لوگ حکومت کے اقدامات کو صحیح قرار دے رہے ہیں، جبکہ دوسرا طبقہ ان اقدامات کو جمہوری اصولوں کے خلاف سمجھ رہا ہے۔ عوام کی بڑی تعداد اس بات پر زور دے رہی ہے کہ آئین اور قانون کی پاسداری ہر حال میں ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ کا کردار
اس ساری صورتحال میں سپریم کورٹ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ سپریم کورٹ کو ایک خودمختار ادارہ سمجھا جاتا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں سنگین سوالات کو جنم دیتی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ آزادانہ فیصلے کر پائے گی؟ کیا حکومت کی جانب سے جاری دباؤ جمہوریت کے لیے خطرناک نہیں؟
سپریم کورٹ کا آزادانہ کردار ہی ملک کے آئینی نظام کو برقرار رکھ سکتا ہے، اور اگر اس ادارے کو دباؤ میں لایا گیا، تو اس کا اثر نہ صرف عدلیہ بلکہ جمہوریت پر بھی پڑے گا۔
پی ٹی آئی کا مستقبل
پاکستان تحریک انصاف اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ ان کے کئی اراکین گرفتار ہیں اور حکومت کی طرف سے آئینی ترمیم کے ذریعے ان کی طاقت کو مزید کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی ان چیلنجز کا کیسے سامنا کرے گی؟ کیا عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی اپنی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت کو واپس حاصل کر پائے گی؟