
"استعارہ” عربی زبان کا لفظ ہے، اور استعارہ کا لغوی معنی "ادھار لینا” یا "عاریتاً لینا” ہے۔ جب کسی چیز یا لفظ کو اس کے اصل معنی کی جگہ کسی اور چیز کے لیے بطور علامت یا تشبیہ کے استعمال کیا جائے تو اسے استعارہ کہتے ہیں۔
استعارہ کی تعریف
استعارہ کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ ادبی اصطلاح میں استعارہ کے معنی وہ طرزِ بیان ہے جس میں شاعر یا نثر نگار کسی چیز کو اس کے ظاہری یا حقیقی معنوں میں بیان کرنے کے بجائے کسی اور شے کے ذریعے مجازی یا علامتی انداز میں بیان کرتا ہے۔
استعارہ کے ارکان اور مثالیں | Istiara Ke Arkaan
اردو ادب میں استعارہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ہم کسی چیز کو براہِ راست بیان کرنے کے بجائے کسی اور چیز کا نام لے کر بات کرتے ہیں۔ اس سے بات زیادہ خوبصورت، گہری اور اثر انگیز ہو جاتی ہے۔
استعارہ کو سمجھنے کے لیے اس کے تین اہم حصے یا ارکان ہوتے ہیں۔ اگر یہ تینوں نہ ہوں تو بات مکمل نہیں ہوتی۔ آئیے انہیں آسان زبان میں سمجھتے ہیں:
مستعار منہ
مستعار لہ
وجہِ شباہت
1. مستعار لہ
"مستعار لہ” اُس اصل چیز یا شخص کو کہتے ہیں جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہو، لیکن ہم اس کا نام براہِ راست نہیں لیتے بلکہ کسی اور چیز کا نام استعمال کرتے ہیں۔
یعنی وہ چھپی ہوئی حقیقت ہے، جسے ہم اشارے سے بیان کرتے ہیں۔
مثال کے ساتھ وضاحت:
شعر:
“یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”
یہاں عشق کے بارے میں بات ہو رہی ہے — یعنی "مستعار لہ” = عشق
لیکن شاعر عشق کا نام نہیں لیتا بلکہ اسے "آگ کا دریا” کہتا ہے — یہ "مستعار منہ” ہے۔
تو عشق (جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے) = مستعار لہ
آگ کا دریا (جو نام لیا گیا ہے) = مستعار منہ
جملہ:
"ماں میرے گھر کی روشنی ہے”
اصل بات ماں کے بارے میں ہو رہی ہے → مستعار لہ = ماں
مگر ماں کو "روشنی” کہا گیا → مستعار منہ = روشنی
مثال:
"میدان میں شیر آگیا۔”
یہاں جس بہادر انسان کی بات ہو رہی ہے، وہ مستعار لہ ہے۔
2. مستعار منہ – جس چیز کا نام لیا گیا ہو
"مستعار منہ” وہ لفظ یا تصور ہے جو اصل چیز یا شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی ہم کسی چیز یا شخص کو دوسرے لفظ سے پہچانتے ہیں۔
اسے "ظاہری نام” یا "ظاہر کیا گیا لفظ” بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ یہ وہ لفظ ہوتا ہے جو زبان پر آتا ہے جب ہم کسی اصل چیز یا شخص کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔
مستعار منہ کی مثال:
شعر:
"یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”
— جاں نثار اختر
مستعار منہ: "آگ کا دریا”
یہاں پر "آگ کا دریا” مستعار منہ ہے، کیونکہ یہ عشق کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔مستعار لہ: "عشق”
یہاں "عشق” مستعار لہ ہے، کیونکہ اصل چیز یا بات عشق کی ہے، اور ہم نے اس کا نام براہِ راست نہیں لیا، بلکہ "آگ کا دریا” کہا ہے۔
تو، "مستعار منہ” وہ لفظ ہے جو ہم عشق کے بجائے "آگ کا دریا” کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
مثال:
جملہ:
"ماں میرے گھر کی روشنی ہے”
مستعار منہ: "روشنی”
(کیونکہ ہم نے "ماں” کے لیے "روشنی” کا لفظ استعمال کیا ہے)مستعار لہ: "ماں”
(اصل بات ماں کی ہے، اور اس کا تعلق "روشنی” سے ظاہر کیا گیا ہے)
مثال:
"میدان میں شیر آگیا۔”
یہاں "شیر” وہ لفظ ہے جو استعمال ہوا، تو یہ مستعار منہ ہے۔
3. وجہِ شباہت
"وجہِ شباہت” وہ خاص بات یا خصوصیت ہوتی ہے جو دو مختلف چیزوں یا افراد میں مشترک ہوتی ہے، اور اسی وجہ سے ہم ایک چیز کو دوسری سے ملاتے ہیں یا تشبیہ دیتے ہیں۔
یہ وہ مشابہت ہوتی ہے جو دونوں چیزوں یا افراد میں پائی جاتی ہے، اور یہی وجہِ شباہت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر ہم ایک چیز کو دوسری چیز کی طرح بیان کرتے ہیں۔
وجہِ شباہت کی مثال :
شعر:
"یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے”
جاں نثار اختر
مستعار لہ: "عشق”
(ہم اصل چیز "عشق” کی بات کر رہے ہیں)مستعار منہ: "آگ کا دریا”
(ہم "عشق” کو "آگ کے دریا” سے تشبیہ دے رہے ہیں)وجہِ شباہت:
"آگ” اور "دریا” دونوں میں شدت اور کٹھنائی ہوتی ہے — یعنی "آگ کا دریا” کو "عشق” سے ملایا گیا ہے کیونکہ دونوں میں دکھ، شدت اور درد کی مشترک خصوصیت ہے۔یہاں وجہِ شباہت یہ ہے کہ "آگ” اور "دریا” دونوں ہی شدت اور چیلنجز کو ظاہر کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے عشق کو ان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
مثال:
جملہ:
"وہ تیز ہوا کی طرح میرے سامنے آئی”
مستعار لہ: "وہ” (یعنی شخص)
مستعار منہ: "ہوا” (یعنی ہوا کا لفظ استعمال کیا گیا)
وجہِ شباہت:
ہوا اور شخص میں تیزی اور غصہ کی خصوصیت مشترک ہے — شخص کی جلدی آمد اور ہوا کی تیز رفتار میں مشابہت ہے، اس لیے "ہوا” کو "شخص” کے لیے استعمال کیا گیا۔
مثال:
"میدان میں شیر آگیا۔”
شیر اور انسان دونوں میں بہادری ہے، تو "بہادری” یہاں وجہِ شبہ ہے۔
وجہِ شباہت کی مثال
جملہ:
"وقت دریا کی طرح بہتا ہے۔”
مستعار لہ: وقت (جس کی بات ہو رہی ہے)
مستعار منہ: دریا (جس کا نام لیا گیا ہے)
وجہِ شبہ: بہاؤ یا گزرنا (دونوں مسلسل چلتے رہتے ہیں)
استعارہ کی شعری مثالیں | Istiara Ki Shaa’ri Misalein
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
علامہ اقبال
(زہر کو علاج یعنی "تریاق” کہا گیا ہے)
دل کو میرے ہوا کا جھونکا بھی لگے تو یاد آتی ہے
تو سوچ کہ تیری یاد کیا قیامت ڈھاتی ہوگی
امعلوم
(یاد کو "قیامت” کہا گیا ہے)
یہ عشق نہیں آسان، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جاں نثار اختر
(عشق کو "آگ کا دریا” کہا گیا ہے)
پھول کی طرح لب کھلے، خوشبو کی طرح بات کی
نامعلوم
(لب کو "پھول” اور بات کو "خوشبو” کہا گیا ہے)
وقت کے ہاتھوں میں سب کچھ ہے مگر
وقت خود کسی کے ہاتھ نہیں آتا
نامعلوم
(وقت کو ایک جاندار قوت کہا گیا ہے)
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان، جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مرزا غالب
(وعدے کو زندگی کا سہارا کہا گیا ہے)
دنیا ایک خواب ہے، نیند ہے، بےخبری ہے
کیا دیکھ رہا ہے، کیا ڈھونڈ رہا ہے؟
نامعلوم
(دنیا کو "خواب” کہا گیا ہے)
یادیں بن کے چراغ جلتی ہیں
خاموشی میں بھی باتیں کرتی ہیں
نامعلوم
(یادوں کو "چراغ” کہا گیا ہے)
خود کو جلانا پڑتا ہے روشنی کے لیے
یہ شمع ہمیں زندگی سکھا گئی
نامعلوم
(شمع کو "استاد” یا زندگی کا سبق کہا گیا ہے)
قفس اُداس ہے یارو! صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ گلشن ہو
فیض احمد فیض
(قید کو "قفس” اور آزادی کو "گلشن” کہا گیا ہے)
استعارہ کی نثری مثالیں | Istiara Ki Nasri Misalein
زندگی ایک کتاب ہے، ہر دن اس کا نیا صفحہ۔
(زندگی کو "کتاب” کہا گیا ہے، کیونکہ دونوں میں نئے نئے باب آتے ہیں)وقت دریا کی طرح بہہ رہا ہے۔
(وقت کو "دریا” کہا گیا ہے، کیونکہ دونوں رکتے نہیں)بچپن خوشبو کی طرح ہوتا ہے، جو پل میں اُڑ جاتا ہے۔
(بچپن کو "خوشبو” کہا گیا ہے، کیونکہ دونوں ناپائیدار ہوتے ہیں)وہ لڑکا تو چلتا پھرتا طوفان ہے۔
(لڑکے کو "طوفان” کہا گیا ہے، کیونکہ وہ بہت پُرجوش یا بے قابو ہے)ماں دل کا دریا ہے، جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔
(ماں کے جذبے کو "دریا” کہا گیا ہے، کیونکہ وہ بےحد ہوتا ہے)تمہاری باتیں زہر لگتی ہیں۔
(باتوں کو "زہر” کہا گیا ہے، کیونکہ وہ دل دکھاتی ہیں)علم روشنی ہے اور جہالت اندھیرا ہے
(علم کو "روشنی” اور جہالت کو "اندھیرا” کہا گیا ہے، کیونکہ ایک ہدایت دیتا ہے، دوسرا گمراہی)یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم سب اداکار۔
(دنیا کو "اسٹیج” کہا گیا ہے، کیونکہ یہاں سب اپنا کردار ادا کر رہے ہیں)دوستی ایک سایہ ہے جو دھوپ میں کام آتا ہے۔
(دوستی کو "سایہ” کہا گیا ہے، جو مشکل وقت میں ساتھ دیتی ہے)وقت ایک بےرحم استاد ہے، جو پہلے امتحان لیتا ہے پھر سبق دیتا ہے۔
(وقت کو "استاد” کہا گیا ہے، کیونکہ یہ زندگی سکھاتا ہے)
تشبیہ اور استعارہ میں فرق | Tashbih Aur Istiara Mein Farq
تشبیہ:
تشبیہ میں "کی طرح” یا "جیسے” جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ دو چیزوں کے درمیان مشابہت کو واضح کیا جا سکے۔تشبیہ کا مقصد ہے کہ دو چیزوں کی مشابہت یا موازنہ کرنا، اور اس میں "کی طرح” یا "جیسے” کا لفظ ضروری ہوتا ہے۔
استعارہ:
استعارہ میں "کی طرح” یا "جیسے” کا استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ایک چیز کو دوسری چیز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔"استعارہ میں ایک چیز کو دوسری چیز کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے دونوں ایک ہی چیز ہوں۔ اس میں ‘کی طرح’ یا ‘جیسے’ کا استعمال نہیں ہوتا۔”۔
تشبیہ کی مثالیں:
وہ چاند کی طرح روشن ہے
(چاند کی طرح روشن ہونے کا ذکر ہے)اس کا چہرہ گلاب کی طرح کھلتا ہے
(چہرے کو گلاب کی طرح سمجھا جا رہا ہے)تمہاری آواز شہد کی طرح میٹھی ہے
(آواز کو شہد کی طرح میٹھا کہا جا رہا ہے)وہ شیر کی طرح بہادر ہے
(شیر کی طرح بہادری کو ظاہر کیا جا رہا ہے)اس کی آنکھیں سمندر کی طرح گہری ہیں
(آنکھوں کو سمندر کی طرح گہرا کہا جا رہا ہے)
استعارہ کی مثالیں:
وہ چاند ہے
(یہاں چاند کو مستقیم طور پر انسان سے تشبیہ دی گئی ہے)میری زندگی ایک سمندر ہے
(زندگی کو سمندر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے)دل ایک کمرہ ہے، جہاں دروازے بند ہیں
(دل کو کمرہ کہا جا رہا ہے)وہ کتاب کا صفحہ ہے، جس پر ہم نے کئی کہانیاں لکھی ہیں
(کتاب کے صفحے کو زندگی کی کہانیوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے)وہ میری دنیا ہے
(دُنیا کو محبوب یا اہم شخص کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے)
استعارہ اور کنایہ میں فرق | Istiara Aur Kinaya Mein Farq
استعارہ:
- استعارہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے طور پر پیش کیا جائے۔
یہ موازنہ نہیں ہوتا، بلکہ دونوں چیزوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا جاتا ہے۔
کنایہ:
کنایہ میں کسی چیز یا بات کو مخفی یا غیر واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے، جس کا اصل مطلب دوسرے الفاظ میں ہوتا ہے۔
کنایہ میں کوئی چھپی ہوئی حقیقت ہوتی ہے جو پورے طور پر ظاہر نہیں کی جاتی۔
اس میں کچھ اشارے ہوتے ہیں، لیکن حقیقت کو براہِ راست بیان نہیں کیا جاتا۔
استعارہ کی مثالیں:
وہ چاند ہے
(چاند کو مستقیم طور پر انسان کے لیے استعمال کیا گیا ہے)میری زندگی ایک سمندر ہے
(زندگی کو سمندر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے)وہ دل کا دریا ہے
(دل کو دریا کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے)اس کی آواز گلاب کی خوشبو ہے
(آواز کو گلاب کی خوشبو کہا گیا ہے)محبت ایک جادو ہے
(محبت کو جادو کے طور پر پیش کیا گیا ہے)
کنایہ کی مثالیں:
آسمان پر ایک سیاہ بادل ہے
(یہ کنایہ ہے کہ کوئی مشکل یا برے حالات آ رہے ہیں)اس نے اپنا راستہ بدل لیا
(یہ کنایہ ہے کہ وہ شخص اپنا ارادہ یا نظریہ بدل چکا ہے)وہ شیر کی طرح جنگ لڑتا ہے
(یہ کنایہ ہے کہ وہ بہادر ہے، لیکن براہِ راست یہ نہیں کہا گیا)وہ کسی اور کی نظر میں ہے
(یہ کنایہ ہے کہ وہ کسی دوسرے سے محبت کرتا ہے)میرے لب خاموش ہیں، دل میں طوفان ہے
(یہ کنایہ ہے کہ دل میں جذبات ہیں، لیکن وہ باہر ظاہر نہیں ہو رہے)
استعارہ اور مجازِ مرسل میں فرق | Istiara Aur Majaz-e-Mursal Mein Farq
استعارہ:
استعارہ میں ہم ایک چیز کو دوسری چیز کے طور پر براہ راست پیش کرتے ہیں، اور اس میں "کی طرح” یا "جیسے” کا استعمال نہیں ہوتا۔
استعارہ میں کسی چیز کو مقصد یا خصوصیت کے مطابق دوسری چیز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہ موازنہ نہیں ہوتا، بلکہ دونوں چیزوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا جاتا ہے۔
مجازِ مرسل:
مجازِ مرسل میں کسی چیز یا شخص کا ایک حصہ یا کسی خاص خصوصیت کو پورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس میں کسی لفظ کے ذریعے پورے مفہوم یا پوری حقیقت کو اشارے سے بیان کیا جاتا ہے۔
مجازِ مرسل میں جزء (حصہ) کو کلیہ (پورا) کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، اور یہ ظاہری تعلق پر مبنی ہوتا ہے۔
استعارہ کی مثالیں:
وہ چاند ہے
(چاند کو مستقیم طور پر انسان کے لیے استعمال کیا گیا ہے)میری زندگی ایک سمندر ہے
(زندگی کو سمندر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے)وہ دل کا دریا ہے
(دل کو دریا کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے)اس کی آواز گلاب کی خوشبو ہے
(آواز کو گلاب کی خوشبو کہا گیا ہے)محبت ایک جادو ہے
(محبت کو جادو کے طور پر پیش کیا گیا ہے)
مجازِ مرسل کی مثالیں:
اس کے ہاتھ میں قلم ہے
(یہ مجازِ مرسل ہے کیونکہ "قلم” یہاں علم یا تصویری اظہار کے لیے استعمال ہو رہا ہے)اس کا دل بڑی خوشی سے لبریز ہے
(یہ مجازِ مرسل ہے کیونکہ "دل” کو جذبات یا محسوسات کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے)وہ پورے شہر کا رخ بدل دے گا
(یہ مجازِ مرسل ہے کیونکہ "شہر” سے مراد اس کے لوگ یا شہری ہیں)اس کی زبان سے شیر کی طرح آواز آتی ہے
(یہ مجازِ مرسل ہے کیونکہ "زبان” سے مراد آواز یا الفاظ ہیں)وہ پہاڑوں کی طرح مضبوط ہے
(یہ مجازِ مرسل ہے کیونکہ "پہاڑ” سے مراد طاقت یا استحکام ہے)
استعارہ کے جملے | Istiara Ke Jumlay
زندگی ایک پہیلی ہے، جو ہر دن نیا سوال لاتی ہے۔
(زندگی کو "پہیلی” کہا گیا ہے)وقت پَر لگا کر اُڑ رہا ہے۔
(وقت کو "پرندہ” سمجھا گیا ہے)یادیں راکھ میں چھپی ہوئی چنگاریاں ہیں۔
(یادوں کو "چنگاریاں” کہا گیا ہے)غم دل پر پتھر بن کر بیٹھا ہے۔
(غم کو "پتھر” کہا گیا ہے)دوستی ایک سایہ ہے جو دھوپ میں ساتھ دیتا ہے۔
(دوستی کو "سایہ” کہا گیا ہے)امید ایک دیا ہے جو اندھیرے میں بھی جلتا رہتا ہے۔
(امید کو "دیا” کہا گیا ہے)ماں دل کی وہ روشنی ہے جو کبھی بجھتی نہیں۔
(ماں کو "روشنی” کہا گیا ہے)محبت ایک خوشبو ہے، جو چھپائے نہیں چھپتی۔
(محبت کو "خوشبو” کہا گیا ہے)وہ شخص میرے دل کا قیدی بن گیا ہے۔
(محبوب کو "قیدی” کہا گیا ہے)وقت ایک بےرحم قصائی ہے، جو سب کچھ چھین لیتا ہے۔
(وقت کو "قصائی” کہا گیا ہے)
استعارہ کے اشعار | Istiara Ke Ashaar
- یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جاں نثار اختر
عشق کو "آگ کا دریا” کہا گیا ہے
- قفس اُداس ہے یارو! صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ گلشن ہو
فیض احمد فیض
قید کو "قفس” اور آزادی کو "گلشن” کہا گیا ہے
- تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
مرزا غالب
وعدے کو زندگی کا سہارا کہا گیا ہے
- پھول کی طرح لب کھلے، خوشبو کی طرح بات کی
کیا بات تھی اُن کی، کیا بات کی
لب کو "پھول” اور بات کو "خوشبو” کہا گیا ہے
- چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
یہ وقت کی آنکھ ہے، نم کبھی ہوتی نہیں
جون ایلیا
چراغ = انسان، ہوا = وقت کا اثر
- دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
مرزا غالب
دل کو "سنگ و خشت” (پتھر و اینٹ) نہ سمجھو — یعنی دل نازک ہے
- دل جلتا رہا، شمع کی صورت رات بھر
اک صبح کی امید میں، تنہا جیا ہوں میں
دل کو "شمع” کہا گیا ہے
- دل تھا کہ کوئی آئینہ، ٹوٹ گیا خیالوں سے
خاموش سا منظر تھا، بکھر گیا سوالوں سے
نامعلوم (ادبی محفلوں میں مقبول)
دل کو "آئینہ” کہا گیا ہے
- یہ وقت کس کی رفاقت کا محتاج ہے
یہ ریت کا شہر ہے، ٹوٹ جائے گا
احمد فراز
دنیا کو "ریت کا شہر” کہا گیا ہے
- . آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
یہ عشق ہے، کھیل نہیں، آنکھ مچولی کا
عشق کو "آگ کا دریا” اور "کھیل” کے متضاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے