پنجاب اسمبلی نے زرعی انکم ٹیکس بل 2024 کی منظوری دے دی
پنجاب اسمبلی نے زرعی انکم ٹیکس بل 2024 کو کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے، جس کے تحت اب زرعی آمدن کے ساتھ ساتھ مویشی پالنے والے کسانوں پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس بل میں زیادہ آمدن رکھنے والے کسانوں پر سپر ٹیکس بھی نافذ کیا جائے گا۔
رہورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ملک محمد احمد خان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم کو رد کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی، جو حکومتی اتحادی جماعت ہے، نے اس بل کی شدید مخالفت کی اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما علی حیدر گیلانی نے ایوان میں شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے انہیں اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا، جس کے باعث اپوزیشن نے تمام ترامیم کے رد ہونے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
اس نئے قانون کے مطابق زرعی زمین پر انکم ٹیکس کی دی گئی چھوٹ ختم کردی جائے گی اور مویشیوں پر بھی ٹیکس کو زرعی ٹیکس کا حصہ شمار کیا جائے گا۔ بل میں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زرعی انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی پر نادہندہ کو اضافی دنوں پر فی دن 0.1 فیصد جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
بل کے مطابق، اگر کسی کی زرعی آمدن 12 لاکھ روپے سے کم ہو تو نادہندہ کو 10 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح، 4 کروڑ سے کم زرعی آمدنی والوں کو 25 ہزار اور 4 کروڑ سے زائد آمدن والوں کو 50 ہزار روپے جرمانے کا سامنا ہوگا۔ اس کے علاوہ، 12 لاکھ سے 4 کروڑ روپے آمدنی کے حامل کسانوں پر ٹیکس کی عدم ادائیگی پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
زرعی انکم ٹیکس ایکٹ 2024 میں 1997 کے زرعی انکم ٹیکس ایکٹ میں موجود ٹیکس شیڈول کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد اس کا نفاذ سال 2025 میں ہوگا۔
علاوہ ازیں، پنجاب اسمبلی نے رجسٹریشن ترمیمی بل 2024 اور وزیراعلیٰ کے مشیروں کو ایوان میں بات کرنے کے اختیار سے متعلق رولز کو بھی منظور کرلیا۔ اجلاس کا ایجنڈا مکمل ہونے پر اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبوں کو دی گئی ترجیحی سہولتیں، ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی منظور شدہ 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام سے متعلق رپورٹ میں یہ زور دیا گیا تھا کہ پاکستان کو گزشتہ 75 سالوں کے معاشی ڈھانچے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے تاکہ معاشی عدم استحکام سے بچا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی معیشت جمود کا شکار ہے جس سے عوامی معیار زندگی متاثر ہوا ہے اور 40.5 فیصد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ملک کی برآمدات زیادہ تر زراعت اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر منحصر ہیں جبکہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کو فروغ دینے میں مشکلات درپیش ہیں۔