اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا 26 ویں ترمیم پر اظہار تشویش
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ واکر ٹرک نے 26 ویں آئینی ترمیم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں عدالتی نظام کی خودمختاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
حالیہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت عدلیہ سے متعلق کئی اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں، جن میں سب سے نمایاں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے اختیارات کو محدود کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ، چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کا اختیار اب پارلیمانی کمیٹی کو دے دیا گیا ہے، جو پہلے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز کے دائرہ اختیار میں تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ واکر ٹرک کو تشویش ہے کہ یہ ترامیم بغیر مکمل مشاورت اور بحث و مباحثے کے منظور کی گئی ہیں، جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کا عالمی انسانی حقوق کے قوانین سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔
اس سے قبل، انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس (ICJ) نے بھی 26 ویں آئینی ترمیم پر اعتراض کیا تھا اور اسے عدلیہ کی خودمختاری کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا تھا۔ آئی سی جے کے سیکریٹری جنرل سنتیاگو کینٹن نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ "ان ترامیم کے ذریعے عدلیہ کی کارکردگی پر محدودیتیں عائد کی جا رہی ہیں، جس سے یہ ادارہ آزادانہ طور پر کام نہیں کر پائے گا۔”
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی اس ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق، اس ترمیم سے عدلیہ حکومتی اثر و رسوخ میں آ سکتی ہے، جس سے انصاف کی فراہمی میں غیر جانبداری متاثر ہو سکتی ہے۔
وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس ترمیم کو واپس لے، کیونکہ اس کے اثرات عدلیہ کی خودمختاری پر منفی ہوں گے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ حکومت کے زیر اثر آ سکتی ہے۔
نئی آئینی ترمیم کے تحت کچھ اور اہم تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ ان میں ہائیکورٹس کے از خود نوٹس لینے کے اختیارات ختم کرنا، آئینی بینچز کے قیام کا نیا طریقہ کار اور ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا نیا نظام شامل ہے۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی کیس کو اپنے دائرہ اختیار میں منتقل کر سکتی ہے، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل میں بھی تبدیلی کی گئی ہے، جس میں ایک وفاقی وزیر اور ایک سینئر وکیل کو شامل کیا گیا ہے۔